Wednesday, September 4, 2019

مرا ہوا شخص جو زندہ ہے



No photo description available.


 تاریخ میں اک صلاح الدین ایوبی تھا جس نے فاتع اور حاکم وقت ہو کر رعایا کو وہ حقوق دیئے جن کی وجہ سے آج بھی اس کا نام زندہ ہے اور اک صلاح الدین وہ تھا جس نے نہ صرف حکمرانون بلکہ رعایا کو منہ چڑھا کہ ان کو ان کی اوقات دیکھانے کا موقع دیا ہے، خود تو مر گیا ہے مگر سوال یہ ہے کی کیا اس کی موت ہم کو زندہ کرے گی؟
کیا یہ شخص آپ کا منہ چڑھا رہا ہے؟ اگرچہ یہ شخص مر تو پتہ نہیں پر یہ میرا منہ ضرور چڑھا رہاہے کہ میں نے اس معاشرے کی بہتری کیلیے کیا عمل کیا ہے یا پھر صرف سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور وڈیو شئیر کی ہیں جس طرح ہم سب نے سانحہ سائیوال کے مظلوموں کے ساتھ کیا تھا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں وہ اپنے سے تبدیلی کا آغاز کرہیں۔


باقی کا تو پتہ نہیں پر یہ میرا منہ ضرور چڑھا رہاہے کہ میں نے اس معاشرے کی بہتری کیلیے کیا عمل کیا ہے یا پھر صرف سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور وڈیو شئیر کی ہیں جس طرح ہم سب نے سانحہ سائیوال کے مظلوموں کے ساتھ کیا تھا۔
اگر آپ واقعی اس معاشرے میں تبدیلی چائتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اپنا رویہ اچھا رکھیں، خاص طور پر اپنے سے لم تر افراد اور رشتہ داروں سے، آپ نہیں جانتے کہ آج کے حالات میں وہ کس ذہنی پریشانیوں میں ہیں- کسی بھی معاملے میں فلم میں کتاب رسالے کی کہانی میں خود کو مظلوم یا ہیرو مت سمجھیں اگر آپ خود کو ولن کی جگہ رکھ کر سوچیں تو بھی آپ کو اپنے آپ میں ایسی بہت سی عادات کا پتہ چلے گا جو کہ آپ مین اور ولن میں مشرکہ ہیں۔ کوشش کرہیں کسی کی زندگی میں اگر ہیرو نہیں بن سکتے تو ولن بھی مت بنئیں۔

Tuesday, August 13, 2019

کچی عمروالی شدید محبت

                          ( افسانہ)                             

جب مجھے اس سے پیار ہوا تو میری شادی کو 2 سال گزر چکے تھے۔یہ نہیں تھا کہ مجھے اس کا پتہ نہیں تھا میں نے بہت سے لوگوں سے اس کی نہ صرف تعریف سنی تھی بلکہ کئی کتابوں میں بھی اس کے حسن کے چرچے پڑھے تھے لیکن میں اک کھلنڈرا سا شخص ،جس کا ماننا ہے کہ 
" دنیا میں اتنا حسن بکھرا ہے کہ انسان کو دوبارہ جنم لینا چاہئیے" ،
 اس کے حسن کے قصے سن کر نظر انداز کرتا رہا لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ قسمت میں کچھ اورہی لکھا تھا اور قسمت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کیلیے حالات اور اسباب خود مہیا کرتی ہے۔ یہ کوئی آج سے 8 یا 9 سال پہلے کی بات ہے کسی شخص نے اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ اک تصویر بنائی اور وہ تصویر فیس بک پر شیئر کر دی۔ ممکن ہے وہ تصویر لاکھوں نہ سہی ہزاروں لوگوں نے دیکھی ہو گئی پر جب میں نے وہ تصویر دیکھی تو ایسا لگا کہ اس شخص کو قسمت نے نہ  جانے کہاں سے لا کر اس مکمل حسن کے سامنے دو زانوں میرے لیے بٹھایا ہے اور اس نے وہ تصویرمیرے لیے بنوائی ہے کیوں کہ اس تصویر کو جب میں نے دیکھا تو وہ پیکر حسن اک عجب بے نیازی سے کن آنکھوں سے مجھ سے مخاطب ہوا۔
نظرانداز کرنے کی سزا دینی تھی تم کو
تیرے دل میں اتر جانا ضروری ہو گیا تھا

اور مجھے اس سے پہلی نظر میں ہی سفید بالوں کے ساتھ کچی عمر والی شدید محبت ہو گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے اگر کچی عمر میں شدید محبت نہیں کی تو یقین کریں آپ نے زندگی نہی گزاری بلکہ صرف وقت گزارا ہے اور اگر آپ نے کچی عمر میں محبت کی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پھر ہر وقت اور ہر محفل میں خیال یار ہی ہوتا ہے۔ کوئی کسی سے سرگوشی کرے تو بھی یہ ہی وہم کے اس کا ذکر ہے کوئی آپ کو غور سے یا رک کر دیکھے تو بھی دل کا  دھڑک جانا کہ کہیں اس کو پتہ تو نہیں چل گیا! لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ بہانے بہانے سے خود اس کا تزکرہ کرنا اس سے وابستہ چیزوں اور لوگوں سے انس محسوس کرنا۔ محبوب کو دیکھنے کے بہانے تراشنا۔ دنیا اور مسترد کیے جانے کے خوف سے اظہار محبت نہ کر سکنا لیکن اس کمزوری کو پاکیزہ محبت کا نام دے کر کور کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچی عمر کی محبت کی نشانیاں ہیں اور میں نے ان نشانیوں اور اک سکرین شاٹ کے ساتھ اپنی یکطرفہ محبت میں یوں ہی 6 سال گزار دہیے۔ اور پھر اک دن اک فیملی فرینڈ کے فون نے دل و دماغ میں غدر برپا کر دیا جب اس نے بتایا کہ وہ آجکل  "اس" سے قریب ہی نوکری کر رہا ہے تو دل میں اس کو دیکھنے کی سلگتی چنگاریاں اک دم نمرود کی آگ بن کر بھڑک اٹھیں۔ لیکن ارمانوں پرہر دفعہ ہی اوس پڑ گئی کہ جب بھی اس کے شہر کی طرف سفر کیا تو بیوی بچوں نے بھی ساتھ زادہ راہ باندھ لیا اورکیونکہ میں ان کو ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا تو دو سال مین اس کی طرف جانے والے راستے کے موڑ پر کھڑا ہو کر یہ ہی کہتا رہا

میں نے پلکوں سے در یار پر دستک دی ہے
میں وہ سوالی ہوں جسے کوئی سوال یاد نہیں۔

اور پھر قسمت نے میرے ساتھ عجیب مذاق کیا کہ میرا شوق دیدار بڑھانے کو اور مجھے ڈی گریڈ (اور کیا کہوں) کرنے کو میرے اس دوست کو اس کے سامنے جا کھڑا کیا اورمیں جو 8 سال سے اس کے ہجر میں مبتلا تھا، مجھے قسمت نے دو دفعہ دریا کے کنارے سے پیاسا واپس بھیج دیا اور جو پیاسہ نہ تھا اس کوپہلی ہی دفعہ سمندر عطا کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 میرے دوست نے نہ صرف ا س تک جاتے راستوں کی تعریف کی بلکہ اس کیلیے اردو لغت کا ہر وہ لفظ استعمال کیا  جو کسی کی خوبصورتی،دلکشی، نزاکت، لطائفت وغیرہ کیلیے استعمال ہو سکتا تھا، لیکن میں اپنے دل میں اٹھتے جذبات کے طوفان کو سنبھلنے کی کوشش میں بول سکا، ایسی بات ہے تو چل اس سے دیکھ کے آتے ہیں،مگر واہ رہے قسمت،دوست بولا ابھی تو اس تک جانے کے راستے بند ہوگئے ہیں، اگلے سال کا پروگرام بناو،اس کی اس بات سے دل میں اٹھنے والا طوفان دل کے زمین پر آنسوں کی برسات بن کے برسا اور محبت کا پودا تناور درخت بن گیا اور اس کے ساتھ ہی ہجر کا 9 سال شروح ہو گیا۔ زندگی روٹیئن میں ٓنے لگی اور بقول منیر نیازی صاحب کے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کال ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔
اور ان کل ہوتے دنوں میں اک دن بھی ایسا نہیں تھا جب اس کا خیال دل سےنکلا ہواور جومیں اس کے دیدار کے منصوبے بنا رہا تھا، اس وقت قسمت کی ستم ضریفی پر رو پڑا جب اس کا دوست کا فون آیا جس نے اس تک پونچھنے کے انتظامات کرنے تھے کہ میرا تو تبادلہ ہو گیا ہے ۔
جاری ہے   

Thursday, August 9, 2012

پاک گنز کی اک جی ٹی جی تھی

پاک گنز کی اک جی ٹی جی تھی
 اور پاک پلازہ میں کی تھی

دن کو ساون ٹوٹ کر برسا
 اور رات بھی بھیگی بھیگی تھی
 قھقے سرگوشیوں گنز اور مونچھیں
 بات کہاں اور کس کس ڈھنگ کی تھی

پنجاب کے سارے ھی رنگ تھے
 سرائیکی لاہوری پھوٹھو ہاری سنگ تھے
 مت پوچھ افطاری کا کیا عالم تھا
 ہوٹل والے بھی تو تنگ تھے
کچھ باتیں ابھی ادھوری ہیں

 اور خلوص کی کشش باقی ہے
 پر دل میں اک یاد تو جاگی ہے
کہ
پاک گنز کی اک جی ٹی جی تھی
 اور پاک پلازہ میں کی تھی


Monday, September 19, 2011

کچھ حادثوں سے انجم گر گے ہیں زمین پر

کچھ حادثوں سے  انجم  گر  گے  ہیں  زمین  پر
ہم بھی رشک آسمان تھے ابھی کل کے بات ہے

Sunday, February 27, 2011

Poetry: Aasmaan say zameen ke haad main ah gaya hoon

آسمان سے زمین کی حد میں آ گیا ہوں 
میں کسی کی بددعاؤں کی زد میں آ گیا ہوں 

مرے دوستو میرا ماتم برپا کرو 
کہ میں حرف کربلا کی شد میں آ گیا ہوں

تیری رحمت پے سوال اٹھا بیٹھا ہوں اے خدا 
 میں مومن ہوں کہ کسی حد میں آ گیا ہوں 

یہ کسی کی محبت کا احجاز ہے جہانگیر 
کہ اب میں اپنے خال و خد میں آ گیا ہوں